اس کے حوالے سے مختلف آراء اور اصطلاح پر تشریحات موجود ہیں۔ میرے نزدیک ایک دانشور کے کیا خدوخال ہوتے ہیں عرض کیے دیتا ہوں۔ لازم نہیں کہ آپ اس سےاتفاق کریں لیکن سوچ اور اس موضوع پر مکالمےکی نئی راہیں ضرور کھل سکتی ہیں، جس سے میرے لئے سیکھنے کے اسباب پیدا ہو سکتے ہیں۔
1۔ غصے پر مکمل کنٹرول ہوتا ہے
راقم نے کہیں پڑھا کہ جس انسان کا بھی غصے پر مکمل کنٹرول ہوتا ہے، وہ کسی روایتی ڈگری نہ ہونے کے باوجود مکمل ماہر نفسیات ہوتا ہے۔ بظاہر اس سادہ سی بات پر میں کافی عرصہ اش اش کرتا رہا۔ بات پیچیدہ ہے اور جتنی گرہیں کھولتی جائیں معانی کے جہاں ہاتھ آتے جائیں۔ ہم دلی، دراصل تنقیدی فکر اور تجربات کا نچوڑ ہے۔ غصہ ایک ایسی توانائی ہے جس نے ارتقا کے سفر میں ہماری بقا کےلیے بہت اہم کردار ادا کیا۔
اب بھی جب انسان بچہ ہوتا ہے تو یہ توانائی، نوزائیدہ عقل کو شکست دیتی ہے۔ لیکن تنقیدی فکر اور تجربات کے تنوع سے ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ اس توانائی کو عقل پر حاوی نہ ہونے دیں اور عقل کےاستعمال سے اس توانائی کا مثبت استعمال کریں۔ بالکل ایک سینئر کھلاڑی کی طرح جو غصے کی توانائی کو مسلز کی طاقت کےلیے استعمال کرتا ہے جسے ہم نفسیات کی زبان میں ‘بناوٹی غصہ’ کہہ سکتے ہیں۔ ایک جونئیر کھلاڑی کے غصے کا قد جب عقل سے بلند ہو جائے تو وہیں سے کھیل میں شکست کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جس طرح علم کی انتہا عجز کہلاتی ہے، اسی طرح دانشور اور غصہ ایک دوسرے کی ضد ہو جاتے ہیں۔ مقصد کےحصول کے لیے بناوٹی غصہ البتہ ایک اور بات ہے۔ دانشور کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسان محفوظ رہتے ہیں۔
2۔ اخلاقیات کے چھٹے درجے پر فائز ہوتا ہے
کول برگ کے نظریہ اخلاقیات کی رو سے وہ اخلاقیات کے آخری اور چھٹے درجے پر فائز ہوتا ہے۔ کہنے کو وہ پانچویں درجے پر رہ کربھی دانشور کہلا سکتا ہے لیکن ہم دانشور کی بلاسقم تعریف کرنا چاہتے ہیں اس لیے اس کا چھٹے درجے پر فائز ہونا لازم ہے۔ مصیبت یہ ہےکہ چھٹے درجے کو لازم قرار دینے سے بہت وسیع پیمانے پر چھانٹی ہو جاتی ہے۔ بہرحال جو دوست اس نظریے سےنہیں واقف ان کے لیے پہلے چار درجے چھوڑ کر پانچویں اور چھٹے درجے پر کچھ بات کر لیتے ہیں
ایک صاحب ہیں جنکا نام زید ہے۔ زید کی بیوی سخت بیمار ہے۔ اس کو آج دوائی نہ ملی تو وہ مرجائے گی۔ زید کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ دوائی خرید سکے۔ زید کیمسٹ کی منت کرتا ہے لیکن کیمسٹ دوائی دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ رات کو جب کیمسٹ دکان بند کر کے چلا جاتا ہے تو زید کیمسٹ کی دکان سے مطلوبہ دوائی چوری کر لیتا ہے۔ دوائی کے استعمال سے اس کی بیوی کی جان بچ جاتی ہے۔ یہاں اخلاقیات کے حوالے سے کئی سوال پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلا کیا زید کو چوری کرنی چاہئے تھی؟ کیا کیمسٹ کو دوائی دینے سے انکار نہیں کرنا چاہیے تھا؟ کیا زید کی بیوی کو مر جانا چاہیے تھا؟ کیا زید کا عمل قابل سزا ہے؟
کول برگ کے نظریہ کے اعتبار سے چوتھے درجے کی اخلاقیات (لاء اینڈ آرڈر) کی رو سے کیمسٹ اپنے رویے میں ٹھیک تھا۔ زید کی بیوی کو مر جانا چاہئے تھا۔ زید کو چوری کی سزا ملنی چاہئے۔ یہ سب اس لیے کہ سماج نے اجتماعی حوالے سے کچھ قوانین وضع کیے ہیں۔ ان قوانین پر عمل ریاست کی بقا اور شہریوں کے حقوق اور معیار زندگی کے لیے لازم ہے۔ لیکن یہاں ایک پانچواں درجہ ہے۔ پانچویں درجے پر فائز انسان کہتا ہے کہ۔۔ معذرت میں نہیں سمجھتا کہ زید کو سزا ہونی چاہیے کیونکہ زید نے اپنی بیوی کی جان بچانی تھی۔ اس نے جو کیا ٹھیک کیا۔ سماج کے تمام قوانین انسان کی بہتری اور اس بلند معیار زندگی کے لیے بنائیں گئے ہیں۔ اگر ایک انسان کی زندگی ہی داؤ پر لگ جائے تو کونسے سماجی معاہدے اور قوانین۔۔ زندگی بچانا پہلا فرض ہے۔ یہ مؤقف تو پانچویں درجہ پر فائز انسان کا ہے جبکہ چھٹے درجے پر فائز انسان کہتا ہے کہ نہ صرف زید نے ٹھیک کیا بلکہ چوتھے درجے پر ‘لاء اینڈ آرڈر’ میں ترمیم کرنا ضروری ہے تاکہ کسی اور زید کی بیوی بھی اس کرب سے نہ گزرے۔
یہاں معاملہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ چوتھے درجے پرموجود ‘لاء اینڈ آرڈر’ کو ریاست اپنی بقا کا مضبوط ذریعہ بھی سمجھتی ہے۔ جب چھٹے درجے کی اخلاقی سطح کاانسان، چوتھے درجے پر ترمیم کی بات کرتا ہے تو غدار کہلاتا ہے۔ ریاست اس کو اپنی بقاء کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ پوری دنیا کے تمام قوانین جو انسانی حقوق، صنفی تفریق کو ختم کرنا،غلامی کا خاتمہ،جانوروں کے حقوق، ماحولیات کے حوالے سے قوانین انہیں ‘غدار دانشوروں ‘کے مرہون منت ہیں۔
3۔ معیار زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے
دانشور جانتا ہے کہ زندگی کا مقصد بقول برٹرینڈ رسل خوشی کا حصول ہے۔ خوشی کے حصول کی یہ کاوش اس کی ذات سے شروع ہو کر آس پاس معاشرےتک پہنچتی ہے۔ وہ کسی سے اختلاف کے باوجود، اس کے حق اختلاف کے لیے لڑتا ہے۔ وہ معیار علم کی کسوٹی حسیات اور عقل کو مانتا ہے۔ اسی علم کو معیار بنا کر وہ سماج کے قوانین وضع کرنا چاہتا ہے۔ ریاست کی نظر کو تعصب سے پاک دیکھنا چاہتا ہے۔ صنفی، مذہبی، علاقائی، رنگ، زبان، نسل وغیرہ کی بنیادوں پر امتیاز کے خلاف جدوجہد کرتا ہے۔
4۔ صاحب تعلیم ہو نہ ہو۔۔ صاحب علم ہوتا ہے
واصف صاحب نے کسی جگہ کہا تھا کہ پہلے کے حقائق کو پڑھنا تعلیم کہلاتی ہے۔ نئے حقائق دریافت کرنا علم کہلاتا ہے۔ نیوٹن، فرائیڈ، آئن سٹائن، بلھے شاہ، شیکسپئیر کو پڑھنا تعلیم ہے۔۔ لیکن ایسا بننا صاحب علم ہے۔ دانشور آؤٹ آف باکس سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ صلاحیت ہونے کے باوجود ضروری نہیں کہ وہ کوئی بڑی دریافت کر سکے کیونکہ اس میں کچھ اور تغیرات بھی آ جاتے ہیں۔ فنون لطیفہ ہو یا سیاسیات تمام میدان انہیں دانشوروں کے قدم سے قائم ہیں اور ترقی کر رہے ہیں۔
5۔ عقلی تعصبات کو پہچانتا ہے۔
عقلی تعصبات، تنقیدی فکر میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ تمام تعصبات کو شکست دینا تو بہت مشکل ہے کیونکہ ارتقا کے سفر میں کئی عقلی تعصبات ہمارے وجود کا حصہ بن گئے لیکن پہلی سطح پر اگر کوئی انسان اس تعصبات کو پہچان رہا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ کیونکہ یہ پہلی سطح ہی دوسری سطح یعنی ان عقلی تعصبات کو رد کرنے کی سطح کی جانب راہ ہموار کرتی ہے۔
6۔ اپنی غلطی سے رجوع کرتا ہے
اگر زندگی کی کسی بھی موڑ پر اس کا کوئی نظریہ غلط ثابت ہو جائے تو ان دلائل جن کی وجہ سے اس کا نظریہ باطل ہوا کو مانتا ہے اور ان نئے دلائل سے نظریے کی نئی عمارت کھڑی کرتا ہے۔ کیونکہ علم کے میدان میں وہ معروضی طرز فکر رکھتا ہے اس لیے اسے اس سے اس کی انا پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ اس کی گذشتہ دریافت غلط ثابت ہوئی۔ بلکہ بقول ڈاکٹر عبدالسلام اگر اس کا نظریہ ثابت ہو کر قانون بن جائے تو وہ خوش اور اگر غلط ثابت ہو جائے تو زیادہ خوش کیونکہ اس سے علم کی کئی اور راہیں کھل جاتی ہیں۔ محض اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لیے تصدیقی تعصب کا سہارا نہیں لیتا
ہم کہہ سکتے ہیں کہ دانشور تنقیدی و معروضی طرز فکر اور ہم دلی کا حامل ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو ذاتی و اجتماعی معیار زندگی میں بہتری کے لیے کوشش کرتا ہے۔
دوسرے انداز میں ہم دیکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ
غصیلا اور صاحب تکبر۔۔ دانشور نہیں ہوتا
عقلی تعصبات میں گھر ا شخص دانشور نہیں ہوتا
اخلاقیات کے چوتھے یا اس سے کم درجے پر فائز انسان۔۔ دانشور نہیں ہوتا
اپنی غلطی سے رجوع نہ کرنے والا۔۔ د انشور نہیں ہوتا
زندگی میں نئی خوبیوں اور علمی و سماجی معیارات کو بہتر بنانے کی کوشش نہ کرنے والا۔۔ دانشور نہیں ہوتا
(اس مضمون کا خیال۔ ید بیضا اور فرنود عالم کے مابین فیس بک پر ہوئے ایک مکالمے سے لیا گیا۔ )
Author- وقار احمد ملک
وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘