بھٹو صاحب کی مندرجہ ذیل تقریر پر تاریخ و زمینی حقائق سے ناآشنا لوگ بہت واہ واہ کرتے ہیں کہ کیا ہی مضبوط لیڈر تھا۔ جس میں وہ انتہائی مغرور انداز میں قرارداد پھاڑ کر اٹھ کر چلے آتے ہیں۔ کسی نے لکھا کہ ہمیں تو ایسے ہی نڈر لیڈرز کی ضرورت ہے۔
اب یہ ویڈیو جس طرح سیاق و سباق سے ہٹ کر لگائی گئی ہے یہ واقع میں کوئی بہت بڑا کارنامہ لگتی ہے لیکن اگر میں آپ کو بتاؤں کہ یہ شعبدہ بازی بھٹو صاحب نے تب کی تھی جب ہمارے ملک کا بدترین سانحہ رونما ہو رہا تھا؟ جی، بالکل، یہ قرارداد پھاڑنے کا احمقانہ فیصلہ اسی وقت کیا گیا تھا جب سقوطِ ڈھاکہ ایسے تھا کہ اب ہوا اور اب ہوا۔ شاید ان کی واہ واہ کرنے والوں کو پتہ بھی نہ ہو کہ یہ قرارداد تھی کس متعلق؟ یہ اسی جنگ کے پرامن حل کے متعلق تھی۔
جب بھٹو صاحب اقوامِ متحدہ سلامتی کونسل پہنچے تھے تو پاکستان کو ساتھیوں کی شدید ضرورت تھی کیونکہ پاکستانی فوج کو مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی اور ہندوستانی فوج کی جانب سے چن چن کر مارا جا رہا تھا۔ امریکہ جو اس وقت ہمارا اتحادی تھا، اس کے وزیرِ خارجہ نے بھٹو سے کہا کہ “مسٹر بھٹو ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن بہتر ہے کہ آپ دیگر ممالک کے نمائندوں کو بھی قائل کرلیں” بھٹو نہ جانے اس یقین دہانی کو سن کر کتنی امیدیں وابستہ کر بیٹھیں تھے کہ انہوں نے تقریر کے دوران کسی بھی ہدایت کا خیال نہ کیا جو کہ امریکی وزیرِ خارجہ نے انھیں کی تھی کہ “عملی بات کیجیے گا یہ وقت تاریخی کتب میں تقریریں چھپوانے کا نہیں” بلکہ وہ جذباتی باتیں کرتے رہے اور ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کی تفصیل میں ہی گھس گئے۔ اس کے بعد پھر بھی دو حل سلامتی کونسل نے پیش کیے۔ ایک مستقل ارکان کی جانب سے تھا یعنی فرانس اور برطانیہ اور دوسرا غیر مستقل ارکان کی جانب سے تھا جو کہ اس وقت پولینڈ تھا۔ ان دونوں حل کی تفصیلات یہ تھیں کہ پولینڈ نے کہا تھا کہ لڑائی کو فوراً روک دیا جائے اور پاکستان پر شیخ مجیب الرحمٰن کی حکومت تسلیم کرلی جائے اور مشرقی پاکستان کے متعلق پارلیمانی فیصلہ کریں جبکہ برطانیہ اور فرانس نے یہ کہا کہ دونوں افواج لڑائی روک دیں۔ ہندوستانی فوج اور پاکستانی فوج دونوں مشرقی پاکستان خالی کردیں اور وہاں اقوامِ متحدہ کی انسانی امداد کے عملے کو بھیجا جائے اور بعد ازاں تینوں فریقین بیٹھ کر یہ فیصلہ کرلیں کہ مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔
اب ویسے تو پولینڈ کی قرارداد بھی کوئی زیادہ غلط نہیں تھی لیکن ظاہر ہے بھٹو صاحب کی ہوسِ اقتدار اور انا کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا قبول ہونا تو ممکن نہ تھا لیکن برطانیہ اور فرانس کی آفر اگر حالات کے مطابق دیکھا جاتا تو مناسب تھی لیکن شاید بھٹو صاحب کسی اور قسم کی ہواؤں میں اڑ رہے تھے۔ انہوں نے دونوں قراردادیں پھاڑیں اور وہاں انگریزی میں چار جملے کہے اور چلتے بنے۔ ان جملوں میں کہی گئی باتیں واضح دھمکیاں تھیں جیسے “چاہو تو ہم پر “معاہدہ ءِ ورسائلز” سے بدتر پابندیاں عائد کردو” “چاہو تو ہم پہ حملے اور قابض ہونے کی اجازت دے دو” “لیکن ہم ایسی ذلت آمیز شرائط قبول نہیں کریں گے” وغیرہ وغیرہ۔ شاید وہ چاہتے تھے کہ ہندوستانی فوج کو مشرقی پاکستان سے نکلنے کا حکم ملے اور اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا جائے لیکن ایسا ہوا نہیں۔
نتیجہ کیا نکلا اس شعبدہ بازی کا؟ اقوامِ متحدہ نے معاملے میں دلچسپی کم کرلی کیونکہ انہوں نے بھٹو کے اس عمل کو اپنے اوپر عدم اعتماد کے طور پر تعبیر کیا لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں بنا کسی شرط کے ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور جو فوجی و سویلین قتل ہوئے ان کا کوئی حساب نہیں۔ پاکستان دو لخت ہوگیا اور تریانوے ہزار فوجی قیدی بنالیے گئے۔
ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں لیڈر چاہیئے خطیب نہیں شعلہ بیانی اور لمبی لمبی جذباتی تقاریر اچھی لگتی ہیں لیکن موقع کی مناسبت سے۔ اسی طرح کہاں دلیری دکھانی ہے اور کہاں حکمت یہ بھی سمجھنا ضروری ہے۔ صرف گلے پھاڑنے اور بداخلاقی کرلینے سے کوئی لیڈر نہیں بن جاتا۔ لیڈر وہ نہیں جس میں انا ہو بلکہ لیڈر وہ ہے جو اپنی عوام کے فائدے کے لیے کسی ملک کے گھٹنوں کو بھی ہاتھ لگانا پڑے تو لگا لے۔ اس متعلق ایک کامیاب لیڈر ونسٹن چرچل کا قول یاد آرہا ہے کہ:
“بہادری صرف کھڑے ہوکر بےجگری سے اپنی بات کہنا نہیں بلکہ بہادری خاموش رہ کر مخالف کی رائے سننا بھی ہے۔”
ZAB didn’t tear out Polish Resolution. Instead, he tore his notes. (This I read on ZAB’s history on internet. One can Google it). I also read Polish Resolution on internet. It didn’t specify to expel Indian Military from EP. It reiterated that safe exit will be permitted to Pakistan’s Military & Police including Civilians from WP. Indian Military will maintain Law & Order in EP till such time situation returns to normalcy in the judgement and prudence of Indian Military. Cost of keeping Indian Military would be debited to Pakistan. How could Islamabad get the control of EP was unanswerable at that juncture when whole thing was at Indian discretion? Point to be noted that having transferred SBP to EP, under the Six Point Agenda, Mujib could declare independence of the Province, then all other Provinces of the State: Sindh, Baluchistan, Punjab & Sarhad would have fallen apart automatically. Moreover, after transfer of SBP to Decca, all other four provinces or four Pakistan would have become bankrupt independent States. No one in Gen. Yahyah’s government was able to detect this hidden resultant impact of Polish Resolution except ZAB who was famous to be super intelligent and super negotiator. In contrast, Mujib was totally India dependent & India was a well established enemy. Power should have been transferred to Mujib after amending six point agenda & Cancelling Yahyah’s LFO as WP & EP confederation. Muhammad Ali Chishty