چلو بیرون ملک

ارشاد سلیم تب اور اب

ارشاد سلیم: ستر کی دہائی کے اوائل میں میں نے “دبئی چلو” کے عنوان سے ایک نظم (انگریزی میں) لکھی تھی۔
میں نے اسے ڈان اخبار میں پڑھنے کے بعد لکھا کہ ایک کشتی الٹ گئی۔ جہاز میں ایک درجن سے زائد پاکستانی سوار تھے جو چپکے سے دبئی جانے کے خواہشمند تھے۔

*دبئی چلو*
(دہقان کی امید)

تمہیں معلوم ہے بیٹا میرا دبئی رہتا ہے
کووئین پر ایک بڑے سے تیل كے
وہ کام کرتا ہے
ہمیں وہ بھیجتا ہے ہر محینے
رقم موٹی سی
خرید کی جاتی ہے جس سے
آٹا، ڈال، چینی، گھی
بچا کر کچھ رقم رکھتے ہیں ہم صندوق میں اپنے
کہہ فہمیدہ کی شادی پر یہ روپے کام آئینگے
میرے بیٹے نے خط لکھ ہر ہمارا حال پوچھا ہے
جواباً ہم یہ لکھتے ہیں
خدا روزی سلامت رکھے
وہ محنت کر رہا ہے تاکہ صحرا لیحلاحا اٹھے
اسکے دم سے چولھا جل رہا ہے
اور گائے دودھ دیتی ہے
خدا چاہے تو اگلے سال اُسے دلہا بنائیں گے
نئے ہیڈ ماسٹر کی دختر بیا لاینگے
کہہ اب بیٹا ہمارا اپنے پیروں پ
کھڑے ہونے کے قابل ہو گیا ہے

*ارشاد سلیم؛ 1973/1974*
جمیل عثمان نے ترجمہ کیا۔

میری رائے میں، مندرجہ بالا سماجی و اقتصادی ماڈل کی ضرورت اب گہری اور زیادہ فوری نوعیت کی ہو گئی ہے۔ یہ ماڈل دونوں کی مدد کرے گا: عام آدمی، نوجوانوں، پیشہ ور افراد وغیرہ کے ساتھ ساتھ اس سے ریاست اور حکومت کو بھی فائدہ ہوگا۔

آخر مجھے اور مجھ جیسے بہت سے لوگوں کو بیرون ملک جانا پڑا۔ اگرچہ میں واپس آیا۔ بیرون ملک روزی کمانے کے علاوہ بہت کچھ سیکھنے کو ہے۔

ستر کی دہائی کا سماجی و اقتصادی ماڈل اور جو اس وقت سسٹم کو فائدہ پہنچا رہا ہے، “سب” کے لیے موزوں ہے۔ جس میں وہ سیاسی ماڈل بھی شامل ہے جو دو بڑی سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں۔