اب مذمتوں ، قراردادوں ، تشویش سے آگے جانا ہوگا۔

امیر محمد خان

ہم شائد بہت معصوم قوم ہیں،چھوٹی چھوٹی چیزوں پر اپنے لئے خیر کا عنصر کا ڈھونڈ لیتے ہیں اور بغلیں بجانے لگتے ہیں۔ میں اپنی عملی زندگی کے ابتدائی دور میں کراچی اور لاہور سے نکلنے والے انگریزی ”دی سن “ سے منسلک تھا ، زمانہ طالب علمی سے ٹرید یونین یا یوں کہیں کہ یونین بازی کا شوق تھا ، وہا ں بھی اپنی ملازمت کے شائد ایک سال بعد ہی وہاں کی ٹریڈ یونین سے منسلک ہوگیا ، احتجاجی بات چیت یا ٹریڈ یونین کا تصور جب بھی ابھرتا ہے جب کوئی ناانصافی ہو۔ میرے ساتھ بھی یہ ہی ہوا ، دی سن میں تین ماہ کے کیلئے 1300 روپیہ ماہانہ پر ملازم رکھا گیا یہ تجرباتی وقت کیلئے تھا ، چوتھے ماہ بھی کام کرتا رہا ، جب چوتھے ماہ کی تنخواہ کیلئے گیا تو شعبہ حسابات نے حکم دیا کہ آپ تو تین ماہ کیلئے رکھے گئے تھے آپکی چوتھے ماہ کی تنخواہ تو نہیں ہے۔ میں نے عرض کی کہ کیا میرے تمام مینجرز اور شعبہ حسابات اندھے تھے کہ میں کام کررہا ہوں اور اور منع نہیں کررہے۔ فیصلہ ہوا کہ مجھے رکھ لیا گیا ، زمانہ طالب علمی کی رگ پھڑکی اور وہاں کی ٹریڈ یونین سے نہ صرف وابستہ ہوگیا بلکہ دی سن کی ایمپلائیز یونین کا صدر ہوگیا، اور پانچ سال سے بلا مقابلہ صدر رہا۔ اس دوران اخبار کے مالکان تنخواہوں میں تاخیر کرتے تھے ، ادارے کے مالکان سے بات چیت ہوتی تھی کہ تنخواہ میں تاخیر ہورہی ہے لوگ پریشان ہیں، مالکان کا جواب کچھ یو ں ہوتا تھا ”تنخواہوں میں تاخیر ؟؟ یہ تو بہت غلط بات ہے تنخواہوں میں تاخیر نہیں ہونا چاہئے “ یہ جواب سن کر ہم مطمئین ہوجاتے تھے کہ مالک کو تو ہم بھی سے بھی زیادہ افسوس ہورہا ہے تنخواہوں میں تاخیر پر ۔ یہ کہانی بتانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ ادارہ جو گزشتہ ستر سالوں سے کشمیر پر خود بھارت کی جانب سے پیش ہونے والی قراردادوں پر آج تک عمل درآمد نہ کرسکا ، دنیا کے سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اپنے حالیہ پاکستان کے دورے پر بھارت کو لعنت ملامت کرتے ہوئے کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم پر تشویش کا اظہار کیا اور مسئلے کے حل کیلئے ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ ان بھائی کو ثالثی کرنے سے کس نے منع کیا ہے ؟ ان ستر سالوں میں کتنی قراردادیں، تقاریر کشمیریوں کے حق میں ہوئی ہیں اسکا ایک طویل ریکارڈ ہوگا، فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی کتنی قرادادیں پاس کی ہیں ان سب کا کیا ہوا ؟؟ اگر قراردادین پاس نہ بھی ہوں تو بھارت جو کچھ کررہا ہے یا اسرائیل جو کچھ کررہا ہے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ وہ کیا نام نہاد عالمی طاقتوں کو نظر نہیں آرہا، ہاں اگر مسئلہ کسی غیراسلامی ملک میں ظلم و ستم کو ہو تو ان ”عالمی طاقتوں“کی راتوں کی نیند حرام ہوجاتی ہے مسلح فوجیں اتار دی جاتی ہیں حالات کے کنٹرول کرنے کے لئے ، مگر کشمیر میں دو سو سے زائد ہوچلے ہیں دنیا کا پہلا واقع کہ بھارت نے نہ صرف لوگوں کو گھروں میں محصور کررکھا ہے بلکہ اسکی توسیع پسندآنہ نظریں اب مظفر آباد ، آزاد کشمیر پر ہیں، یہ سوچ اس واقعہ کی یاد دلاتی ہے ایک بندر شراب پی کر ہاتھی کو پٹائی کرنے کا پروگرام بنارہاتھا۔ شکر ہے پاکستان میں آکر پاکستان کا نمک کھاکر یہ تو ہوا کہ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کی حساسیت سے آگاہ ہیں‘ وہ بھارت کے اس موقف سے متفق نہیں کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر نہیں ہے۔ وہ اقوام متحدہ کی کشمیر پر قراردادوں کے معترف ہیں۔ بلاشبہ اول و آخر مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادیں ہی ہیں۔ ان سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ ان قراردادوں کی موجودگی میں ثالثی کی بات نامناسب ہے۔ کشمیریوں کو اپنی رائے کا حق جمہوری انداز فکر ہے۔ اکثریت بھارت کے ساتھ جانا چاہتی ہے تو پاکستان کا کشمیر پر حق ختم ہو جائیگا۔ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والے اقلیت میں ہونگے تو ان کو اکثریت کا فیصلہ تسلیم کرنا پڑیگا۔ ثالثی میں خودمختار کشمیر کی بات ہو سکتی ہے جسے خطے کی جارح طاقت جب چاہے ہڑپ کرلے۔ ثالث آزاد کشمیر کو پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا مستقل حصہ قرار دے سکتا ہے۔ کشمیری اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل پر متفق ہیں‘ ثالث کے فیصلے کو ماننے کے پابند نہیں ہونگے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے ثالثی کی پیشکش کشمیر ایشو کے حل کے ایک زینے سے نیچے آنے کے مترادف ہے۔ ثالثی کی پیشکش مسئلہ کشمیر کے منظر پر آنے کے شروع میں کی جاتی تو بھارت ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر اسے قبول کرلیتا مگر اب اس نے جو توقعات بڑھالی ہیں اور توسیع پسندی کی جو منزل مقرر کرلی ہے‘ وہ ثالثی پر تیار نہیں ہورہا۔ اسکی نظریں تو مقبوضہ کشمیر کے باہر آزاد کشمیر اور گلگت پر ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری دو سو روز کے کرفیو سے انسانی المیہ بدترین شکل اختیار کرگیا ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ بھارت نہ صرف مقبوضہ وادی میں حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہے بلکہ متنازعہ شہریت قانون کے بعد بھارت میں بغاوت کا الاؤ دہک رہا ہے۔ بھارت مظاہرین کی توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان کیخلاف مہم جوئی کر سکتا ہے جس کے بھیانک نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔ اس پر خصوصی طور پر اقوام متحدہ کو توجہ دینا ہوگی۔ اب بات مذمت‘ تشویش اور دباؤ سے آگے چلی گئی ہے‘ بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف لانے کیلئے بااثر ممالک اور اقوام متحدہ کو پابندیوں کا ہتھیار استعمال کرنا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل نہ کی ہوتی تو اس کا ازلی مکار دشمن بھارت اسے کب کا ہڑپ کرچکا ہوتا جبکہ اس نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی گھناؤنی سازشوں میں اب بھی کبھی کمی نہیں آنے دی اور بھارتی جرنیلوں کے علاوہ خود نریندر مودی پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی متعدد بار گیدڑ بھبکی لگا چکے ہیں۔ پاکستان کا بھارت کے ساتھ کشمیر پر ہی بنیادی تنازعہ ہے جس پر اس نے پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی نیت سے ہی 1948ء میں تسلط جمایا تھا اور پھر اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیکر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا جبکہ اس نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی درخوراعتناء نہیں سمجھا اور پاکستان کے ساتھ شملہ معاہدہ کے باوجود کبھی دوطرفہ مذاکرات کی بھی نوبت نہیں آنے دی۔ کشمیری عوام آج کرفیو کے 200ویں روز بھی گھروں میں محصور ہو کر بے بسی کی زندگی بسر کررہے ہیں جن پر جاری بھارتی مظالم کیخلاف پاکستان کی جانب سے ہر علاقائی اور عالمی فورم پر آواز اٹھائی گئی ہے جبکہ سلامتی کونسل‘ امریکی کانگرس‘ برطانوی پارلیمنٹ‘ یورپی یونین اور او آئی سی سمیت ہر عالمی اور علاقائی نمائندہ فورم کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سے وہاں حالات معمول پر لانے کا تقاضا کیا گیا ہے مگر مودی سرکار ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ اسکے برعکس وہ پاکستان کیخلاف جنگی جنون بھڑکا کر پاک بھارت سرحدوں پر عملاً جنگ کے حالات پیدا کرچکی ہے وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ سال 27 ستمبر کو یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اسی تناظر میں عالمی قیادتوں کو باورکرایا تھا کہ دو ایٹمی طاقتوں میں جنگ ہوئی تو اس سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔ بھارت اس مقصد کیلئے مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ جیسا کوئی اور واقعہ دہرا کر اس کا الزام پاکستان پر لگا سکتا ہے اور اس پر جنگ مسلط کر سکتا ہے۔ اس صورتحال میں اپنی سلامتی کا دفاع پاکستان کا حق اور مجبوری ہوگا جس کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی بروئے کار لانے سمیت وہ کوئی بھی اقدام اٹھا سکتا ہے۔

میونخ سکیورٹی رپورٹ میں بھی اسی تناظر میں عالمی قیادتوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے جس کی پوری دنیا میں تباہ کاریوں سے انہیں آگاہ ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے پاکستان اور بھارت کے ایٹمی سائنس دان بھی ممکنہ ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں سے خبردار کرچکے ہیں اس لئے عالمی قیادتوں اور اداروں بالخصوص امریکی صدر ٹرمپ جو اسوقت بھارت سے مزید پینگیں بڑھانے کیلئے بھارت کا دورہ کررہے دیکھتے ہیں بھارت میں کیا بات کرتے ہیں چونکہ وہ بھی وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ بیٹھ کر کشمیر میں ثالثی کی بات کرچکے ہیں۔ بھارت جس زعم میں اسوقت ہے کہیں ایسا نہ ہوکہ کشمیر پر بات کرنے پر صدر ٹرمپ کا ہی دورہ مختصر ہوجائے، چونکہ بھارت ایک بھاری منڈی ہے اسے کھونا بھی انکے لئے مشکل ہے۔دنیامیں دہشت گردی پر قابو پانا بھی اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے اور کشمیر میں بھارت دہشت گردی کا مرتکب ہورہا ہے ۔دو ممالک کے درمیان ممکنہ ایٹمی جنگ پر منتج ہونیوالے بھارتی جنگی جنون کے آگے اقوام متحدہ بند باندھے اور دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کا باعث مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل کیلئے عملی کردار ادا کرے۔ بصورت دیگر بھارتی جنونیت سے خدا نا خواستہ علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی تباہی نوشتہ دیوار ہے۔