ارشاد سلیم، کراچی
کئی مرتبہ اسرار کرنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں 9 مئی 2018 کو فیریئر حال میں ہونے والے مشاورتی کانفرنس میں شرکت کروں گا جہاں حاکم شہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کریں گے۔
وہ صاحب جنہوں نے مجھے اس محفل میں شرکت کیلئے مدعو کیا، کراچی میں ایک ایڈیٹر اینڈ کلب کے کرتا دھرتا تھے۔
مئی کی صبح جب میں کانفرنس میں شرکت کیلئے روانہ ھوا تو عادت کے مطابق اپنا نوٹ بک اور قلم ساتھ لیا اور رکشے میں بیٹھ کر فیریئر ھال کی جانب روانہ ہوگیا۔
اس دن جب میں فیریئر ھال پہنچا تو میری نشست کے بائیں جانب حاکم شہر کراچی بیٹھے تھے، جیسے ہی میٹنگ شروع ہوئی تو حاکم شہر کراچی نے مفید گفتگو شروع کی اپنی عادت کے مطابق اس گفتگو کو میں اپنی نوٹ بک پر لکھتا چلا گیا تاکہ میں اسے دیس پردیس کی ویب سائٹ پر لکھ سکوں۔ اچانک درمیان میں مجھے سگریٹ نوشی کی طلب ہوئی اس طلب کو پورا کرنے کے لئے میں ھال سے باہر چلا گیا۔
کچھ دیر بعد میں واپس ھال کے اندر داخل ہوا اور اپنی نشست پر جا کر بیٹھا تو جو منظر میں نے دیکھا وہ حیران کن تھا میں اس لمحے دل ہی دل میں پاکستان کی تاریخ میں 30 سال پیچھے چلا گیا اور خیالی دنیا میں ایک پار سے اپنے حال میں کھڑے دوسری طرف اپنی ماضی کی جانب دیکھ کر بس یہی کہہ سکا کہ “کچھ نہیں بدلا”۔ بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ ہم مزید گراوٹ کا شکار ہوگئے۔
آج میرے ملک کا مسئلہ تعلیم، روزگار، صحت، عبادت نہیں بلکہ بنیادی انسانی اخلاقی اقدار ہیں جو کسی بھی معاشرے کی ترقی اور تعمیر کا حقیقی ضامن ہوتا ہے۔
بہرحال میں ان خیالوں کی دنیا سے نکل کر خود کو سنبھالتا ہوا دوبارہ اپنی نشست پر جا بیٹھا اور دل ہی دل میں افسوس کرتا اس صاحب کی جانب دیکھا جو میری نشست کے بائیں جانب بیٹھے میری ٹیبل سے بنا اجازت میرا نوٹ بک اور قلم اٹھا چکے تھے۔
خیر چھوڑیں، جب کانفرنس اختتام پذیر ہوئی تو میری نوٹ بک اور قلم کو لاوارث سمجھ کر وہ صاحب وہیں چھوڑ گئے اور جب میں نے نوٹ بک اٹھا کر صفحات پلٹے تو ٹیڑھی لکیروں کے سوا صفحات مکمل خالی تھے
ان کی اس حرکت سے مجھے بہت دکھ پہنچا، ایک تو میں اس کانفرنس کے آخر کے اہم نکات لکھنے سے قاصر رہا اور ساتھ ہی کراچی میں جو اچھے کام ہوئے اسے سمندر پار پاکستانیوں تک نا پہنچا سکا۔
سوال یہ ہے کہ ہم اخلاقی اقدار کے معاملے میں مسلسل تنزلی کی طرف رواں ہیں اور صد افسوس کے ہمیں اس کا احساس بھی نہیں اور جب کسی شخص کو اس کا احساس دلایا جاتا ہے تو وہ آگے سے تیز آواز میں قہقہے لگا کر ہنستا ہے (جیسا کہ میرے ساتھ اکثر ہوچکا ہے) اور کہتا ہے اتنا تو چلتا ہے۔
جیسا کہ مجھے بتایا گیا کہ فائور پر کام کرنے والے بیشتر پاکستانی فری لانسر کی آ ئ ڈی اس وجہ سے بلاک کردی گئی ہیں کہ ان میں ھیو من انڈیکس کی کمی تھی۔ یہ وہ تربیت ہے جو گھر سے شروع ہوتی ہے جس کی امید آج ہم اسکول اور دیگر تعلیمی اداروں سے لگائے بیٹھے ہیں۔
سچ بولنا، وقت کی پابندی کرنا، غلط بیانی نا کرنا اور اس جیسی کئی صفات و خوبیاں جو گھر سے انسان سیکھتا ہے مگر افسوس آج گھر بھی محظ مکان یا مسافر خانہ کا منظر پیش کررہے ہیں جو معاشرے کی تباہی کیلئے بہت کافی ہے۔ لیکن اس طوفان بدتمیزی میں میں نے بھی عہد کرلیا ہے کہ جو مجھ سے منسلک ہیں ان کی اصلاح کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا اور مجھے یقین ہے کہ میری یہ کوشش مستقل پور پر گرتے ہوئے پانی کے قطرے کی مانند ایک نا ایک دن پتھر پر سوراخ ضرور کرے گی۔ پاکستان زندہ باد۔
Human Index
تربیت، صلاحیت، صراط مستقیم پر چلنا، ایمانداری، دیانت داری، معاہدے کی پاسداری، قول و فعل میں تضاد نہ ہونا، شائستہ ہونا۔
Performance Index
کام کرنے کی صلاحیت، کاریگری، ہنر، مہارت، جگاڑ، کارکردگی۔
Irshad Salim, Karachi, Nov. 14, 2022 | Jhatke Pe Jhatke (Shock & Awe) Series
ہمارے معاشرے کے بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی اخلاقی برائیوں کا ازالہ عبادتوں سے کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔
جبکہ عبادت کا اپنا درجہ ہے اور اخلاقیات کے اپنے درجات ہیں۔۔۔